ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
یہ آتش کے عنفوانِ شباب کے ُان دنوں کا قصہ ہے جب آتش جوان تھا اور بسلسلہ تعلیم دارالخلافہ کی ایک بہترین یونیورسٹی کے ہاسٹل میں قیام پذیر تھا۔
قصۂ کچھ یوں ہے کہ وہ ایک دلفریب رات تھی ۔ تاریکی ہر سمت اپنی سیاہ ناگن جیسی ذلفیں بکھیرے راج کر رہی تھی۔ مارگلہ کی سرسبز و شاداب پہاڑیاں ایک دوسرے کے پہلو میں پہلو ملائے، دامن پھیلائے ُاونگھ رہی تھیں۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے اور نیند کی خوبصورت دلفریب پریاں میری پلکوں پہ اترنے کو بےتاب تھیں…پر میں ابھی خابوں کی رنگین وادی کی سیر و تفریح کے موڈ میں نہیں تھا… کہ اچانک مجھے ایک ‘اچھوتا’ خیال سوجھ گیا…. اور پھر میں نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا…. کہ ابھی اور اسی وقت اپنے کپڑوں کو خود دھویا جائے …اس دفعہ دھوبی کو زحمت نہ دی جائے…ویسے بھی یہ یونیورسٹی کے دھوبی بہت زیادہ کماتے ہیں….کپڑوں کے رنگ بھی پھیکے کر ڈالتے ہیں اور کبھی کبھار استری کرتے ہوئے کپڑے داغ دار بھی کردیتے ہیں۔ پھر ِان سے کپڑے پاک بھی کہاں ہو پاتے ہیں؟ اصل میں میرا خیال ہے… بلکہ آپ یقین کیجئے کہ کپڑوں کو خود دھونے سے اور خود ہی استری کرنے سے بہت سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں… اور اس بچت کردہ رقم کو ملک و قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود کے کاموں میں خرچ کیا جا سکتا ہے… چنانچہ کپڑوں کو دھونے کے لیے سرف کی تلاش شروع کی… پر وہ نہ ملا….ایک دوست جو کہ آدھی رات تک ‘روڈ انسپکٹری’ کرتا رہتا تھا… اس کو موبائل فون سے ٹیکسٹ کر کے دس روپے والا سرف کا پیکٹ منگوایا….. بالٹی میں اپنے سارے کپڑوں کو رکھا… پھر سرف کا پیکٹ کھولنے کی کوشش کی…وہ نہ کھلا تو زور لگایا …. پیکٹ پھٹ گیا اور کچھ سرف نیچے فرش پر بھی گر گیا…. پر میں ذرا نہیں گھبرایا… بالٹی میں کپڑوں کے اوپر سرف ڈالا…. پھر بالٹی کو پانی کی ٹوٹی کے نیچے لے گیا اور نصف بالٹی کو کھولتے ہوئے گرم پانی سے بھر لیا…. کیونکہ بطور کیمیا دان (Chemist) میں جانتا تھا کہ گرم پانی کی "ایکٹیویٹی” زیادہ ہوتی ہے….
بالٹی کو واپس کمرے میں لا کر اپنی چارپائی کے نیچے رکھ کر اور دعا پڑھ کر سو گیا… صبح اٹھ کر کھڑکی سے باہر لاؤن میں جھانکا کہ آج اسلام آباد کے موسم کے تیور کیسے ہیں…. لگ رہا تھا کہ آج موسم بے وفائی نہیں کرے گا…. کپڑوں کی بالٹی کو چار پائی کے نیچے سے برآمد کیا اور دھونے کے لیے واش روم لے گیا….جب ان کو دھونے لگا تو ایک دم سر چکرایا…. کپڑوں کی آپس کی ساری رات کی صبحت کا اثر ظاہر ہو چکا تھا… رنگ دار سوٹ کا رنگ سفید شلوار اور بنیان پر چڑھ چکا تھا… بنیان کی تو خیر ہے…. پر سفید شلوار پر جگہ جگہ جامنی رنگ کے بڑے بڑے دھبے سوالیہ نشان بنے رات بھر کا فسانہ کہ رہے تھے…. میں نے سوچا کہ اب یہ کپڑے دھوبی کو ہی دے دیتا ہوں اس بیچارے کا بھی بھلا ہو جائے گا! جس کا کام ُاسی کو ساجھے۔