ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
آج عورت کا عالمی دن ہے۔ عورت کے وقار اور اس کی عزت کے لئے آج دنیا بھر میں شعور بیدار کیا جارہا ہے کہ عورت کو عزت اور مقام دیا جائے۔ اسے اس کے حقوق دئے جائیں، تحفظ دیا جائے اور آزادی دی جائے۔ ویسے آزادی سے مراد ہے کیا؟؟ اگر ہم مغرب اور مشرق کے درمیان مختلف نظریات میں فرق کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کچھ کائناتی اقدار ہیں جو ہر خطے میں مانے جاتے ہیں اور ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ عورت کے احترام کے بھی دونوں معاشرے ہی قائل ہیں۔ لیکن مغرب میں مادر پدر آزادی کا نام خواتین کے حقوق سے منصوب کیا جاتا ہے اور تیسری دنیا کے پاکستان جیسے ممالک کو عورت کے احترام سے عاری قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی ہمیں ایک ایسی ریاست گردانا جاتاہے کہ جس میں عورت کو آزادی حاصل نہیں۔
گزشتہ کچھ روز سے وطن عزیز میں ایک بحث اپنے عروج پر ہے کہ عورت مارچ ہے کیا؟؟ یہ واقعی عورت کے حقوق کی جنگ ہے یا پھر عورت کو بربادی کے راستے پر ڈالنے کی ایک گہری سازش ؟؟؟ اپنے معاشرتی معاملات کی تہہ میں جا کر اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک طرف سے دلیل دی جاتی ہے کہ عورت کو باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر کی صورت میں تحفظ ، عزت اور حقوق دینے والے وہ لوگ موجود ہیں جو کہ صنف نازک کو اس کا جائز مقام دینے میں خود اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک باپ اپنی گود سے اپنی بیٹی کو پالنا شروع کرتا ہے اور پھر سر پر ہاتھ رکھ کر آخری سانس تک بیٹیوں کے لئے پریشان دکھائی دیتا ہے، ایک بھائی اپنی بہن کی عزت کا محافظ بن کر اس کے لئے ڈیوٹیاں انجام دیتا ہے اور پھرزندگی بھر اس کے دکھ سکھ کا امین بنتا ہے۔ ایک شوہر جو کہ محنت اور مزدوری کی چکی میں پس کر گھر پر موجود اپنی بیوی کو خوشیاں اور مسکراہٹ دینے کے لئے ہر بوجھ اپنے کاندھے پر اٹھاتا ہے۔ تو ایک بیٹا اپنی ماں کے قدموں میں جنت تلاش کرتا ہوا ان قدموں کی دھول بن جانا چاہتا ہے، اولاد ماں کی مسکراہٹ میں اللہ کی رضا اور اپنی کامیابی تلاش کرتی ہے۔ پھر عورت کو اس قدر احترام اور پیار دینے والا مرد بھلا کیسے اس عورت کا دشمن ہو سکتا ہے؟؟؟ وہ اس عورت کی آزادی صلب کیسے کر سکتا ہے؟
لیکن تصویر کا دوسرا رخ جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ اور دوسرا رخ انتہائی کربناک اور کڑوا سچ ہے۔ وہ یہ کہ یہ حقیقت ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ریٹنگ خواتین کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے 153 ممالک میں سے 151 ہے۔ یعنی صرف یمن اور عراق دو ایسے ممالک ہیں جو کہ اس حوالے سے پاکستان سے ابتر حالات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ہماری صورتحال کسی طرح بھی قابل تعریف نہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 70 فیصد خواتین کو خود ان کے اپنے گھر یا قریبی ترین افراد کی جانب سے جنسی ہراساں کیا جاتا ہے۔ جب 70 فیصد خواتین ان حالات کا سامنا کرتی ہیں تو اس وقت عزت فراہم کرنے والے وہ باپ، بھائی اور شوہر کیا کر رہے ہوتے ہیں ؟؟؟ اگر غور کیجئے تو سوال میں ہی جواب چھپا ہے، یعنی ہراسانی کے فرائض یہ حضرات ہی تو ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا ہم سب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری یہ بیٹیاں اور بہنیں اپنے گھروں سے جب اپنی تعلیم، جائے ملازمت یا زندگی میں کچھ بننے کا مشن لئے نکلتی ہیں تو ان کا پیچھا نظریں نہیں کرتیں ؟ یا غلیظ آوازیں ان کی سماعت پر بجلی بن کر نہیں گرتیں ؟؟ حقائق بہت تلخ ہیں حضور! ایک اسلامی فلاحی اور مشرقی روایات کے حامل معاشرے میں پانچ سال کی بچیوں اور بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک باپردہ اور اسلامی شعائر پر عمل پیرا لڑکی یا خاتون پر بھی آوازیں کسی جاتی ہیں اور جنسی ہوس کے نشانے پر رکھا جاتا ہے۔
اگر ہم واقعی بہت اچھے باپ، بھائی ، شوہر اور بیٹے ہیں اور پھر مشرقی و اسلامی روایات کے علمبردار ہیں تو پھر ہمارے معاشرے ہی کی خواتین اس طرح کے حالات کا کیونکر شکار ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف منافقت ہے۔ بنیادی طور پر ہم دوغلے پن کا شکار منافق لوگ ہیں۔ ہم مشرق و مغرب کا امتزاج یعنی آدھے تیتر آدھے بٹیر ہیں۔ ہم وہ ہیں کہ جن کا کوئی تشخص نہیں اور نہ ہی کوئی اپنی روایات ہیں۔ ہم دوہرے اقدار کے مالک ٹوٹے پھوٹے ذہنوں کے لوگ ہر دوسری لڑکی کو اپنا دوست بنانا چاہتے ہیں اورلیکن اگر ہماری بہن، بیٹی اور بیوی سے کوئی دوستی کرنا چاہے تو ہم انتہائی غیرت مند اور باشعار قوم ہیں۔ ہم اپنی نظروںسے عورت کے ایک ایک انگ کا جائزہ لے کر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے خود کو بہترین مقرر سمجھتے ہیں اور اسے ہلکا پھلکا مذاق قرار دیتے ہیں، لیکن اگر ہماری عزت کی طرف کوئی نظر اٹھا کر بھی دیکھے تو ہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ ہم دوہرے معیار کے دوغلے لوگ عورت مارچ میں موجود خواتین کے وجود اور نعروں پرقہقہے بھی لگائیں گے اور حسب ضرورت سنجیدہ اور جذباتی بھی ہو جائیں گے۔ ہم ہیں کون ؟؟ ہمارا تشخص کیا ہے ؟؟ ہم مغرب و مشرق کے درمیان میں کہیں پھسل کر بری طرح سے مٹی اور کیچڑسے اٹے ہوئے لوگ ہیں۔ جو اپنی شناخت ہی کھو چکے ہیں۔ ذرا غور کیجئے گا! یہ جو مغربی رنگ و بو کے ساتھ سیکولر نعرہ لئے خواتین پاکستان کی سڑکوں پر احتجاج کے نام پر ہماری مشرقی اقدار کا ڈرامہ بنانے جا رہی ہیں۔ اس ڈرامے کے پیچھے کہیں نہ کہیں ہم بھی مصنف ہیں ۔ ہم نے اس سکرپٹ میں عورت کے ساتھ وہ زیادتیاں لکھ دی ہیں کہ اس کے پاس سڑک پر آنے کا بڑا بہانہ موجود ہے۔ کاش ہم اپنی روایات کو سمجھ سکیں، اپنی اقدار پر چل سکیں۔ مکمل طور پر اپنی روایات میں ڈھل سکیں، تب ہی ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ہمارا مذہب اسلام عورت کو وراثت، تحفظ، عزت، تعلیم اور ماں کے رتبے جیسا اعلی مقام دینے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے ذہنوں پر مغربی ثقافت اور اقدار کی یلغار ہوگی تو پھر ہم ہمیشہ دو ہرے چہرے کے ساتھ ایک منافق کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اور پھر ہمیں دوسروں کی عزت کو بھی وہی تکریم دینا سیکھنا ہوگی جو کہ ہم اپنی عورت کے لئے چاہتے اور طلب کرتے ہیں۔ اور ہمارا ماضی انھی روایات کا عکاس ہے کہ ایک محلے گلی کے لوگ اپنے علاقے کی سب عزتوں کے مشترکہ طور پر رکھوالے ہوا کرتے تھے۔ ہم اپنی روایات کھو چکے ہیں، ہم آدھے تیتر آدھے بٹیر بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنی روایات کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے خصوصا ہمارے میڈیا نے اپنی روایات کو زندہ کرنے اور نوجوانوں کی اصلاح پر اپنی توانائیاں صرف نہ کیں تو پھر اس طرح کے مارچ اور اس سوچ کی حامل عورتیں ہمارے معاشرے اور روایات کا مذاق اڑاتی رہیں گی۔