ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
تحریر:عجب نور بومل
بنگلہ دیش کو جنم دینے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے وطن سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دیکر ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی ۔۔۔
جبکہ جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی بغیر نتیجے کی رہی۔۔۔
کیونکہ یحییٰ خان تمام تر صرتحال سے فایدہ اٹھا کر اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔۔۔
ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئےمشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ء کو’’یوم پاکستان‘‘ کے بجائے ’’یوم سیاہ‘‘ مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا۔۔۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد آج ہی کے دن لگ بھگ 44 سال کے بعدآرمی پبلک سکول پشاور میں دشمنوں نے ایک بار پھر معصوم بچوں کو خاک اور خون میں نہلا دیا۔۔سانحہ ڈھاکہ کے بعد یہ وہ سیاہ ترین دن تھاجو پوری پاکستانی قوم کیلئے انتہائی تکلیف سے بھرپور اور اذیت ناک تھا۔ جب نہتے اور معصوم بچوں کے جسموں کو درندوں نے گولیوں سے چھلنی چھلنی کردیا۔۔۔۔
اور یہ وہ رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔۔۔ بلاشبہ اس دن کنگ میکرکا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے۔۔۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا ملک کو ٹکڑے کرنے کا سبب بنتا ہے۔۔۔
پاکستان کو ٹکڑے کرنے میں بھٹو، یحییٰ اور مجیب، سب نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا لیکن شکست درحقیقت صرف اور صرف ملک و قوم کے حصے میں آئی۔۔۔۔
آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔۔۔