ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
تحریر: محمد عمران بشیر
احمد کالج سے واپس آیا تو آتے ہی امی جان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا امی جان نے پوچھا بیٹا کیا ہوا آج کچھ پریشان سے لگ رہے ہو احمد نے امی جان کا ہاتھ پکڑا اور سینے پہ رکھ لیا اور حیرت سے آسمان کی جانب دیکھنے لگا امی جان نے پھر پوچھا بیٹا خیریت تو ہے نا کیوں پریشان ہو احمد آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے بولا امی جان اللہ پاک ہمارے سب کے حالات سے واقف ہیں نا ماں نے کہا جی بیٹا وہ تو اس کائنات کا خالق و مالک ہے اور وہ اپنے بندوں کے حالات سے واقف ہے احمد بولا تو پھر امی جان وہ ہمارے ساتھ مساوی سلوک کیوں نہیں کرتا امی جان کہنے لگے بیٹا وہ سب کو آزماتا ہے کسی کو دے کے آزماتا ہے کسی کو نا دے کے آزماتا ہے مگر ایسا نہیں کہ وہ اپنے بندوں سے ناواقف ہے وہ تو ہر جگہ موجود ہے اورہر چیز سے واقف ہے مگر تم آج ایسی باتیں کیوں پوچھ رہے ہو ماں نے حیرت سے پوچھا احمد نے کہا امی جان میرے دوست اسد کی بہن کی شادی ہے اور ان کے پاس تو کھانے لائق بھی پیسے نہیں ہوتے تو ان حالات میں وہ شادی کیسے کریں گے اسد نے صبح بتایا کہ بہت مشکل سے بہن کا رشتہ ہوا ہے مگر امی ابو جہیز اور دنیا کے لین دین رسم و رواج سے بہت پریشان بیں اوپر سے بہن کے سسرال والوں نے بہت شرائط رکھی ہوئیں ہیں بس وہی سب سوچ کے میں صبح کا پریشان ہوں کہ ان کے لیے اپنی بیٹی کی شادی کرنا مشکل ہوگئ ہے
امی جان احمد کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے اور کہنے لگے کہ خدا نے تمھارے دل میں کتنی ہمدردی رکھی ہے کہ کسی کی پریشانی میں تم بھی پریشان ہو احمد نے کہا جی امی جان مجھے بہت پریشانی ہورہی لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اپنے دوست کی کیا مدد کروں امی جان بولیں بیٹا ہم سے جتنا ہوسکا ہم وہ ضرور کریں گے احمد نے کہا امی جان پھر بھی اس سب سے ان کا گزارا نہیں ہوگا امی بولیں ہاں بیٹا جتنا بھی کیا جائے آج کے دور میں گزارا نہیں ہوگا اگلے دن احمد نے اسد سے باتوں باتوں میں بہن کے سسرال کے بارے میں پوچھ لیا اسد نے باتوں باتوں میں گھر کا پتا بھی بتا دیا اگلی صبح احمد ان کے گھر گیا اور انکل سے گزارش کی میرے دوست کی بہن میری بھی بہن ہے ہم میں جہیز دینے کی استطاعت نہیں ہے انکل ہماری بہن بیاہ کے ادھر ہی آنی ہے آپ لوگ خدارا دیکھیے کہ جگر کا ٹکڑا رخصت کررہے ہیں اس سے بڑھ کہ ہمارے پاس کسی چیز کی کوئ قیمت نہیں ہے آپ بھی رحم کھائیے اور دنیا کے رسم ورواج کی بجائے کسی کے حالات پہ نظر دوڑائیے کسی کی مجبوری کو سمجھئیے کسی کی پریشانی کو سمجھئیے احمد کی باتیں سن کر انکل بھی بہت شرمندہ ہوئے اور اپنے آپ کو کوسنے لگ گیے کہ یہ میں کیا گناہ کرنے جارہا تھا شرائط کی بنا پہ شادی کرنے چلے تھے اس پاک سنت کو پورا کرتے ہوئے بجائے اگلے کی استطاعت دیکھنے کہ ہم اپنی شرائط منوانے جارہے تھے خدارا تیرا شکر ہے تو نے گناہ سے بچا لیا احمد بیٹا آپ نے میری آنکھیں کھول دیں واقعی ہی ہمیں دنیا کے رسموں رواج کی بجائے اک دوسرے کی استطاعت دیکھنی چاہیئے ہمیں اک دوسرے کا احساس کرنا چاہیے شام کو انکل گھر آئے اسد کی امی ابو سے سلام دعا ہوئ اور بیٹی کو پیار کیا اور ان سے کہا ہمیں کسی قسم کا کوئ جہیز نہیں چاہیے آپ اپنے جگر کا ٹکڑا ہمیں دے رہے ہیں ہمارے لیے یہی بہت ہے اسد کے امی ابو کے خوشی سے آنسو نکل آئے اور انھوں نے خدا کا شکر ادا کیا اسد نے اگلے روز یہ سب احمد کو بتایا احمد بولا میں نے یہ ہی تو کہا تھا کہ اللہ پاک سب بہتر کرے گا احمد نے امی جان کی مدد سے کچھ پیسے اکھٹے کیے اور جوتے کپڑوں کی صورت میں اسد امی ابو اور بہن کے لیے تحفے بھجوا دیئے کہ یہ ہماری بھی بہن ہے اور ہم پہ بھی اس کی اتنی ہی زمےداری ہے جتنی آپ پہ ہے دو ہفتوں بعد بہن کی شادی ہوئ سب کچھ بہت اچھے سے ہوگیا اسد اور اس کے امی ابو بہت خوش تھے جس چیز نے ان کو پریشان کر رکھ تھا خدا کی کرنی سے وہ پریشانی ختم ہوگئ تھی اسد بھی خوش تھا اور احمد کا بار بار شکریہ ادا کر رہا تھا اور احمد آگے سے یہ ہی کہہ رہا تھا کہ اللہ پاک کے کرم سے ہوگیا سبھی کچھ اس میں میرا کچھ کمال نہیں میں نے بس دوستی کا فرض نبھایا ہے احمد کو دل ہی دل میں بہت سکون محسوس ہورہا تھا کسی کی پریشانی کو اپنی پریشانی جان کر اس نے اپنے دوست کی مدد کی اور مدد بھی ایسی جس کا وہ گواہ تھا یہ خدا گواہ تھا