ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
تحریر عاشق مجید ڈوگر
چائینہ ایران و دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ کرونا کہ پہلی لہر پاکستان میں آئی تو حکومت نے دیگر ملکوں کی پیروی کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کیا اور تقریبا تمام شعبہ ہائے زندگی بند کرتو دیئے مگر پھر جلد ہی احساس ہوا سب کو بند کرنے سے لوگ کرونا سے تو بچ جائیں گے مگر بھوک سے مر جائیں گے اس لیے مرحلہ وار تمام شعبہ جاتا کھول دیئے اورلاک ڈاؤن کے دوران لوگوں امدادی رقوم اور پیکجز دیئے سب سے طویل لاک ڈاؤن سکولز کا کیا گیا اور چھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک تعلیمی سلسلہ بند رہا اس دوران پراییویٹ سکولز سے وابستہ لوگوں پر بہت کٹھن وقت گزرا حکومت کی طرف سے پرائیویٹ سکولز واحد ایسا شعبہ تھا جسے ایک روپے کا بھی ریلیف یا امدادی پیکج نہیں دیا گیا بلکہ الٹا سکولز کو پابند کیا گیا کہ وہ دوماہ کے لئے فیسز میں رعائیت دیں اس رعائیت کا ناجائز فایدہ اٹھاتے ہوئے والدین کی اکثریت نے فیسیں دینے سے ہی انکار کردیا اس طرح وطن عزیز کے تقریبا 60 فیصد طلباء کو پڑھانے والا پراییویٹ ایجوکیشن سیکٹر بحران کا شکار ہوگیا اللہ پاک نے کرم کیا کرونا کیسز میں کمی آئی اور سکول دوبارہ کھل گئے مگر دوماہ بھی پورے نہیں ہوئے کرونا کی دوسری لہر آگئی اس بار حکومت پاکستان نے تمام شعبہ جات کو کھلے رکھا صرف سکولز کی ایک بار پھر تالہ بندی کردی گئی سکولوں پر ایسے چھاپے مارے جانے لگے جیسے یہ تعلیمی مراکز نہیں دشمن ملک کے دہشتگردوں کے ٹریننگ کیمپ ہوں اساتذہ نے احتجاج کیا تو ان پر ایف آئی آر کاٹی گئیں یہ سب کچھ اس اسلامی ریاست میں ہورہا ہے جس کا حکمران اسے مدینہ جیسی ریاست بنانے کا دعویٰ کررہا ہے کرونا کے حوالے اگر کسی شعبہ نے ایس او پیز پر عمل کیا ہے تو وہ صرف شعبہ تعلیم ہے اور حکومت نے شعبہ تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی بلاسود قرضے دیئے جاتے جو سکول کھلنے پر قسطوں میں واپس لے لیتی جہاں دوسرے تمام شعبے کھلے ہیں وہاں مکمل ایس او پیز کے ساتھ سکول بھی کھلے رکھے جاتے اگر کسی علاقے میں زیادہ کیسز آتے وہاں سمارٹ لاک لگا دیا جاتا جس سکول میں کرونا کا کیس آتا اس سکول کو پندرہ دن کے لئے بند کردیا جاتا کرونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کروایا جاتا
تعلیمی نظام کو روکنے کی پالیسی سے بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے اس پر حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے