ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
ایڈیٹر سالانہ ڈائری: تحریر ڈاکٹر فیصل جہاں
ملتان(ایڈیٹر ڈاکٹر فیصل جہاں ) ملتان پولیس سال 2020 میں عوام میں تحفظ فراہم میں بری طرح سے ناکام رہی۔ لیکن اس ناکامی کی ذمہ داری صرف اور صرف پنجاب حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ جہاں پر موجودہ دور حکومت میں آئے روز آئی جی پنجاب کی تبدیلی کی خبر ملتی ہے تو وہیں پر شہر اولیاء اللہ میں بھی پولیس کے کمانڈرز بار بار تبدیل کئے گئے۔ جس کی بنا پر جرائم میں اضافہ اور امن عامہ کی ناقص صورتحال کی ذمہ داری کسی پولیس کمانڈر پر عائد کرنا ناانصافی کہلائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال کے دوران ملتان میں سٹی پولیس آفیسر کی اہم پوسٹ پر تین مختلف افسران کو آزمایا گیا جن میں زبیر احمد دریشک، حسن رضا اور موجودہ سی پی او محبوب رشید میاں شامل ہیں۔ اسی طرح ایس ایس پی آپریشنز ملتان کی پوسٹ پر کاشف اسلم، آصف امین اعوان اور اب کیپٹن ریٹائرڈ ذیشان حیدر کو تعینات کر کے ملتان کے باسیوں کی سیکیورٹی پر کھیل کھیلا گیا۔ کسی ایک پولیس افسر کو شہر کے معاملات کو سمجھنے اور انھیں مکمل طورپر قابو کرنے کے لئے مناسب وقت درکار ہوتا ہے جو کہ ان پولیس افسران کو ہرگز فراہم نہیں کیا گیا۔ تبدیلی سرکار نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے غیر سیاسی پولیس کا نعرہ بلندکیا اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد پولیس پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی حکومت کا اعزاز حاصل کیا۔ جس کا نتیجہ پنجاب کے دیگر شہروں کی طرح ملتان کے شہریوں نے بھی بھگتا۔
سال 2020 میں ضلع ملتان میں 1133 ڈکیتی اور سرقہ بالجبر کی وارداتوں کے ذریعے شہریوں کو نہ صرف کروڑوں روپے مالیت کے اثاثہ جات سے محروم کر دیا گیا بلکہ دوران ڈکیتی مزاحمت پر11 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ کار و موٹر سائیکل ڈکیتی کی ایک ایک جبکہ دیگر ڈکیتی کے 44 مقدمات درج کئے گئے علاوہ ازیں اسلحہ کے زور پر سٹریٹ کرائم، موٹرسائیکل چھیننے، کار چھیننے، گھر کے افراد کو لوٹنے اور دیگر قسم کے سرقہ بالجبر کی 1087 وارداتوں میں شہری دن رات لٹتے رہے۔ نقب زنی کی 593 وارداتوں کے خلاف ضلع ملتان کے تھانوں میں مقدمات درج کئے گئے جبکہ دو ہزار 22 افراد کی گاڑیاں چوری کر لی گئیں جن میں 1918 موٹرسائیکل، 50 کاریں اور 54 دیگر وہیکلز چوری ہوئیں۔ بات صرف یہاں تک مکمل نہیں ہوئی بلکہ 413 مویشی چوری کرکے سادہ لوح دیہاتیوں کو ان کے اثاثہ سے محروم کیا گیا۔ علاوہ ازیں سرقہ عام کے 1771 مقدمات بھی درج کئے گئے جن میں شہروں اور دیہاتوں کے لوگ اپنی جمع پونجی لٹا بیٹھے۔ جہاں شہری ان وارداتوں پربے بسی میں روتے ہوئےنظر آئے وہیں پر ملتان پولیس اوراس کے ترجمان سب اچھا کی بانسری بجاتے ہوئے نظرآئے۔ سال 2020 میں ضلع ملتان کی حدود میں 97افراد کو قتل کیا گیا نیز اقدام قتل کے 167 وقوعہ جات میں 663افراد زخمی ہوئے۔ بات یہیں پر مکمل نہیں ہوتی بلکہ پولیس کو سال بھر بارہا فرائض کی ادائیگی کے دوران مزا حمت کا سامنا کرنا پڑا اور پولیس مزاحمت کے 79 جبکہ کارسرکار میں مداخلت کے 88 مقدمات خود ملتان پولیس کی جانب سے درج کئے گئے۔ اور رہی سہی کسر ان چھ افراد نے پوری کردی جو کہ پولیس حراست سے فرار ہوگئے۔ خواتین اور بچے سال بھر اسلامی فلاحی معاشرے میں عدم تحفظ کا شکار رہے۔ زنا بالجبر کے 188 مقدمات درج کئے گئے جبکہ 13 خواتین گینگ ریپ کا شکار ہوئیں۔ ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت کے اس دور کے سال 2020 میں ضلع ملتان میں 94 معصوم بچوں کو جنسی جرائم و درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اور یہ اعداد و شمار ملتان پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق ہیں جن کے مقدمات باقاعدہ طور پر درج کئے گئے ہیں۔ بلاشبہہ اس سے کہیں زیادہ تعداد ان متاثرین کی ہے جن کی آواز دبا دی جاتی ہے اور واقعات مقدمات کی صورت اختیار نہیں کر پاتے۔
ان تمام تر حالات میں محکمہ پولیس اور اس کے افسران کو ہرگز بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن کسی ایک کمانڈر کی کارکردگی پر انگلی اٹھانا ممکن نہیں کیونکہ کسی بھی ایک افسر کو مکمل آزادی اور دورانیہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ حکومت کی جانب سے سیاسی مداخلت اپنے عروج پر رہی اور شہر اولیاء کے عوام لٹتے رہے ۔ یہ ہی وہ وجہ کی جس کی بنا پر جرائم کی شرح میں خطرناک اضافے کی بھاری ذمہ داری حکومت پنجاب اور وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔