ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
تحریر:۔ محمد فاروق صدیقی
اس بارے تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مہذب دنیا میں حق خود ارادیت کو انسانی وقار اور احترام کا اہم جزو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس پس منظر میں یہ حقیقت نہایت قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی اعلان برائے انسانی حقوق میں اس کا نمایاں ذکر موجود ہے ۔خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان سیاسی اور انسانی اقدار کے تناظر میں بھارتی حکومت کے ان اقدامات اور گھناﺅنے کردار کو سیاسی اور سفارتی سطح پر کس قدر مذمت کے قابل گردانا جاتا ہے ۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت نے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں اپنی عسکری طاقت اور توسیع پسندانہ عزائم کے بل بوتے پر قبضہ کر لیا جو آجکل اس کے لئے باعث ندامت بنا ہوا ہے ۔ بھارت نے کشمیری عوام کو ان کے اس حق خود ارادیت سے محروم کر رکھا ہے جس کا وعدہ اس نے 72 برس قبل اقوام متحدہ کے سامنے کیا تھا ۔ اقوام متحدہ کمشن برائے پاکستان و بھارت نے 5 جنوری1949ءکو ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ مقبوضہ وادی کے عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا اور وہ آزاد اور غیر جانبدارانہ ماحول میں یہ فیصلہ خود کر سکیں گے ۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 5 جنو ری1949ءکو منظور کی گئی قرارداد پر ہنوز عملدرآمد نہیں کیا جا سکا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ بھارت کی حکومت نے اب ایسے اقدامات شروع کر رکھے ہیں جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روح اور مقاصد کے سرا سر بر خلاف ہیں ۔ مثال کے طور پر 5 اگست2019ءکو مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت تبدیل کر دی ۔ اب مقبوضہ کشمیر میں ایسے افراد کو لا کر دوبارہ آباد کیا جا رہا ہے جو1947ءمین وادی سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ یہ اقدام اور انداز ایسا ہے جو اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ مودی حکومت نے گذشتہ 500 دنوں سے مقبوضہ وادی کو ایک ایسی جیل میںمنتقل کر دیا ہے جہاں بھارتی درندے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو سراسر غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں۔ ان سرگرمیوں میں ماورائے عدالت نوجوانوں کے قتل ، خواتین کی اجتماعی آبروریزی، بزرگوں کی ہلاکت اور معصوم بچوں کو مشکلات سے دوچار کرنا نہایت نمایاں ہیں۔
بھارت کے ایسے مظالم کی یوں تو ساری دنیا ہی مذمت کرتی ہے لیکن پاکستان اس سلسلہ میںسرخیل کا کردار ادا کر رہا ہے چنانچہ ہر سال کی طرح آج(4، جنوری) کو بھی پاکستان کے عوام اور حکومت اپنے ان بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے جو مقبوضہ وادی میں بھارتی جبر و تشدد کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔اس دن کے حوالے سے وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین خان گنڈاپور نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ اقوام متحدہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے پاس کی گئی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے۔ حق خودارادیت کے حوالے سے آج سے 72 سال قبل پاس کی گئی اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی حل طلب ہیں اور ان قراردادوں پر عمل درآمد کے انتظار میں ہزاروں کشمیری اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر چکے ہیں۔ بھارت خود مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کے فورم پر لے کر گیا تھا اور اب یہ ہی بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میںگذشتہ سات دہائیوں سے ریاستی دہشت گری جاری رکھے ہوئے ہے جس میں 5 اگست 2019 ءکے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے بعد مزید شدت آئی ہے۔ بھارت نام نہادجمہوریت اور سیکولرزم کو روندتے ہوئے ہندو انتہا پسندی کے فاشسٹ فلسفے پر گامزن ہے اور مودی حکومت کی اولین ترجیح پورے بھارت میں ہندو بالادستی قائم کرنا ہے۔5 اگست 2019 ءکے بھارتی اقدامات اور نئے شہریت قوانین کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آ بادی کے تناسب میں تبدیلی اور بھارت میں اقلیتوں کے حقوق سلب کرنا ہے۔ آج پوری دنیا بھارت کو مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بدترین ملک قرار دے رہے ہیں ۔
بھارتی حکومت نے عالمی برادری کو دھوکہ اور فریب دے کر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں ظلم و ستم اور سیاسی تشدد کا جو بازار گرم کر رکھا ہے جس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ مودی سرکار نے مذکورہ وادی میں ایسے مختلف قوانین نافذ کئے ہیں جن کو مہذب دنیا کسی طور قبول نہیں کر سکتی ۔ مودی سرکار نے ان سیاسی کارکنوں اور رہنماﺅں کو تشدد ،مظالم، قید و بند اور جبری نقل مکانی پر مجبود کر رکھا ہے جو اپنے عوام کے حق خود ارادیت کے نئے میدان عمل میں اترے رہتے تھے۔ خود مودی سرکار نے متعدد مرتبہ اپنے اس خبث باطن کا اظہار اور اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سمیت سارے بھارت کو ایسی ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا جائے گا جہاں پر صرف ہندو مذہب کے پیرو کار ہی آباد ہو سکیں گے ۔ دہلی کی طرف سے اسلام آباد کو بھی ایسی دھمکیاں دی جاتی ہیں جو سراسر گیدڑبھبکیاں ثابت ہوتی ہیں ۔
گزشتہ سال بھارت نے ایل او سی پر جنگ بندی معاہدے کی تقریبا تین ہزار مرتبہ خلاف ورزی کی، سینکڑوں شہریوںکو شہید کیااور اقوام متحدہ کے مبصرین کو بھی نشانہ بنایا۔ بھارت اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے فالس فلیگ آپریشن کا منصوبہ بنا رہا ہے جس کا اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے قابلِ مذمت کاروائیوں کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں بھارتی کردار اور دہشت گرد تنظیموں سے بھارت کے گٹھ جوڑ سے متعلق ڈوزیر حکومت پہلے ہی اقوام متحدہ کے حوالے کر چکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو دُنیا کے ہر فورم پر اٹھانے کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں جس کے باعث آج مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ میں بھی آواز یں بلند ہو رہی ہیں ۔ اقوام متحدہ اور عالمی برداری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھارتی انتہا پسند اقدامات کی روک تھام کے لیے اس کے خلاف فوری کارروائی کرے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے منظور کی گئی قراردادوں jپر عملدرآمد کرائے تاکہ خطے میں امن و سلامتی کی فضا اور ماحول کو فروغ دیا جاسکے۔