ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
تحریر: ملک مزمل عباس جانگلہ
کیا کبھی ہم نے اپنی حالت پر غور کیا ایوب خان کے دور میں ملک میں 22 بڑے صنعتی اور تجارتی خاندان تھے ان کی صنعتوں میں ورکرز برطانیہ امریکہ اور یورپ سے پاکستان آتے تھے اور ان اداروں میں کام کرتے تھے 1960 کی دہائی میں سفارت کار شرط لگاتے تھے 1980 تک لندن آگے ہوگا یا نیویارک یا کراچی لیکن 1980 آیا اور دنیا نے کراچی کو اجڑ تے اور تباہ ہوتے دیکھا اور ان 22 خاندانوں کو1970 کی دہائی میں دربدر بھٹکتے دیکھا یہ تمام خاندان آج ماضی میں دفن ہو چکے ہیں اور قبروں سے ان کی آوازیں تک باہر نہیں آتی کیوں! کیونکہ ملک چلانے والوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا 1965 میں اسٹیبلشمنٹ اور بنگالی سیاستدانوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی اور پھر جنگ کے یہ شعلے روکے نہیں بنگالی سیاستدان حکومت سے آخر کیا مانگ رہے تھے وہ صوبوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے حق دینے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن پھر کیا ہوا اسٹیبلشمنٹ اور بنگالی سیاست دان آمنے سامنے آئے اور نتیجے میں ہم نے آدھا ملک کھو دیا ہم اس نقصان سے بچ سکتے تھے اگر جنرل یہی عوام کے مینڈیٹ کو مان لیتے وہ عوامی مسلم لیگ کو حکومت بنانے کی اجازت دے دیتے مگر ہم نے ملک آدھا کر لیا مگر بنگالی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو سیاسی اور معاشی غلطیوں کے باوجود ایک بین الاقوامی لیڈر تھے ان پر آج تک کرپشن کا الزام نہیں لگا لیکن عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی شروع ہو گئی جنرل گل حسن اور ایئر چیف مارشل عبدالرحیم خان نو کریوں سے فارغ ہوگئے بھٹو صاحب نے اس کے بعد جس جرنل کو آرمی چیف بنایا اور اس کے بعد اسی جنرل نے انھیں سانس نہیں لینے دی اور ان کے وہ سات سال بھی برباد ہوگئے ملک لاک ڈاؤن لاٹھی چارج آنسو گیس اور "مک گیا تیرا شو بھٹو” کے نعروں سے گونجتا رہا اور پھر آخر کار مارشل لاء لگا جرنل ضیاءالحق یونیفارم میں صدر بن بیٹھے جنرل ضیاء کے دس سال بھی بھٹو کی پھانسی غیر جماعتی الیکشن ریفرنڈم محمد خان جونیجو کو لانے اور پھر بھگانے اور بے نظیر بھٹو کو روکنے اور نئی سیاسی پنیری لگانے میں ضائع ہو گئے رہی سہی کسر افغان جنگ اور افغان مہاجرین نے پوری کردی ملک کرپشن کلاشنکوف جیسی لعنت کا شکار ہوگیا جان بوجھ کر ضمیر فروش منشیات فروش اور قبضہ مافیا کو سامنے لایا گیا کراچی میں ایم کیو ایم پیدا ہوئی اور پنجاب میں نئی مسلم لیگ تیار کی گئی یہ دور بھی ہڑتال و لڑائیوں مارکٹائی اور مقدمہ بازیوں میں ضائع ہوگیا جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل اسلم بیگ کو بے نظیر بھٹو پسند نہیں تھی چنانچہ آئی جی آئی بنی اور پارلیمنٹ لوٹا سازی کی فیکٹری بنی جرنل حمید گل نے نواز شریف کے سر پر ہاتھ رکھ دیا یہ1990 میں وزیراعظم بنے اور چند ماہ میں ان کا جنرل آصف نواز جنجوعہ سے جھگڑا ہوگیا یہ لڑائی صدر سے وزیراعظم کے استعفوں پر ختم ہوئی بے نظیر بھٹو دوسری بار آئی اور اسٹیبلشمنٹ نے صدر فاروق لغاری کو ان کے خلاف کھڑا کر دیا نواز شریف بھی صدر سے مل گئے اور یوں یہ اڑھائی سال بھی ضائع ہو گئے میاں نواز شریف1997 میں واپس آئے ملک ٹیک آف کرنے لگا لیکن پھر نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت کا استعفیٰ لے لیا اور ایسے جنرل کو آرمی چیف بنایا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا یہ کوئی زمینی حلقہ نہیں رکھتا لیکن بعد ازاں جنرل پرویز مشرف سے بھی لڑ پڑے اور یہ لڑائی ہمیں کارگل تک لے گئی اور ملک میں مارشل لاء لگ گیا نواز شریف فارغ ہوگئے اور جنرل پرویز مشرف کا دور شروع ہوگیا اور یہ دور بھی مقدموں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے باہر رکھنے پاکستان مسلم لیگ ق کی پیدائش اور مصنوعی حکومتوں کی پرورش میں ضائع ہوگئے اور سیاستدانوں نے یہ وقت بھی لڑ کر گزارا مقدمہ بنتے اور پارلیمنٹ میں ان کے چرچے ہوتے یہ عہد بھی آخر میں NRO اور بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ختم ہوئی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ کےساتھ الجھتی رہی میمو گیٹ اسکینڈل تک ہوگیا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایکسٹینشن بھی ہوگی ہم نے وہ پانچ سال بھی ضائع کر دیے نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو باقی کہانی آپ سب کے سامنے ہے لندن پلان کیا تھا مولانا طاہر القادری کو کون پاکستان لے کر آیا اور پانچ برسوں میں کیا کیا گیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بہرحال عمران خان وزیراعظم بن گئے اور اس وقت بھی ملک میں خوفناک سیاسی لڑائی چل رہی ہے پاکستانیوں نے پچھلے چھ برسوں میں دھرنوں لاک ڈاؤن سول نافرمانی کے سوا کچھ نہیں دیکھا یہ ہے ہمارا ملک آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے دنیا میں کونسا ملک ہے جس میں 60 سال سے اسٹبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان جنگ چل رہی ہوں اور اس ملک میں ترقی بھی ہوئی ہوں اور ملک سلامت بھی رہے اور دنیا کا کون سا ملک ہے جس میں 60 سال سے معیشت کا پیا رکا ہوا ہوں اور معاشی لحاظ سے وہ ملک مضبوط ہو آخر کب تک یہ لڑائی جاری رہے گی ہم کام کب شروع کریں گے ہم نے ساٹھ کی دہائی میں ملک میں دس سال امن قائم کیا تھا ملک کو بزنس دوست ماحول دیا تھا اور یونین بازی اور ہڑتالوں پر پابندی لگا دی تھی آپ دیکھ لیجئے ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔دنیا کے ہر ملک نے اندرونی اتفاق سے ترقی کی ریاست کے دو بنیادی جز سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ جب مل کر ملک کے لئے اتفاق رائے اور اتحاد سے کام کریں گے تو ہم ترقی کی راہ پر چل سکتے ہیں آپ آج پاکستان کا کوئی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس میں امن کے سوا کچھ نہیں ملے گا عدالت سے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے ایوان صدر تک ملک کا ہر ادارہ زوال پذیر ہے کیونکہ ہم آپس میں لڑ رہے ہیں ہم ملک میں استحکام پیدا نہیں ہونے دے رہے ہم بس وقت گزار رہے ہیں۔
میری آپ سے درخواست ہے کہ آنکھیں کھولیں عقل کو ھاتھ ماریں دنیا کی کوئی گاڑی دو مخالف انجنوں اور دو مخالف ڈرائیوروں سے نہیں چل سکتی آپ کسی ایک کا انتخاب کیجیے اور سب مل کر اپنے مفادات ایک طرف رکھ کے ملک کے لیے اتفاق سے کام کریں یہ ملک ہمارا ہے اور ہم سب نے ہی اسے آگے لے کر چلنا ہے اگر اب بھی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسی طرح آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے تو ہم خدا نہ خاستہ دوبار1971 والا سانحہ نہ دیکھیں آخر میں اللہ تعالی سے میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اتفاق اور اتحاد اور محب وطنی نصیب فرمائے۔آمین