ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
تحریر:عجب نور بومل
پاکستان میں شیعہ کل آبادی کا 20 فیصد نمائندگی کرتا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے میں ملک کی اکثریتی برادری کے بنیاد پرستوں کے ذریعہ پائے جانے والے فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔پاکستان میں اسلام کی توہین کسی خوفناک توہین رسالت کے قانون کے تحت ایک فرد کو سزا دینے کا باعث بنتی ہے۔ اس کی سزا طویل مدتی جیل سے لے کر موت تک ہے۔ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور اہل سنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) جیسے بنیاد پرست گروہ اقلیتی برادری کے ممبروں کے خلاف ہدف تشدد کا ارتکاب کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
گذشتہ سال ان بنیاد پرست تنظیموں کے ہزاروں حامی شیعہ کے خلاف کراچی میں سڑکوں پر نکلے تھے۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ٹی ایل پی اور اے ایس ڈبلیو جے کے حامیوں نے امام بارگاہ پر پتھراؤ کیا اور شیعہ برادری کے خلاف نبرد آزما ہوگئے لیکن یہ سب ہونے کے باوجود م اسلام آباد کی خاموشی خاموشی ہے۔ مزید یہ کہ یہ وزیر اعظم عمران خان کے نیا پاکستان میں ہورہا ہے جس نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور مختلف بین الاقوامی فورموں پر بار بار بھارت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے جہاں پاکستان نے بھارت پر مبینہ طور پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتا رہا۔
کوئٹہ میں ہزارہ آبادی تقریبا پانچ سے چھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ضیا دور میں جب فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر نکلا تو ہزارہ آبادی پر الزام لگایا گیا کہ انہیں ایران سے مدد ملتی ہے۔ اسی دور میں مسلکی بنیادوں پر جیش اور لشکر بنے جنہوں نے ملک میں قتل و غارت کے کلچر کو پروان چڑھایا۔ شیعہ ہزارہ آبادی بھی اسی ستم کا شکار ہے۔ پاکستان میں شعیہ ہزارہ کی نسل کشی پر طویل خاموشی طاری رہی ہے۔۔ سن دوہزار سے لیکر اب تک ہزاروں شیعوں کو شہید کر دیا گیا۔
اور اب 2021 میں گیارہ غریب شیعہ مزدوروں کو قربانی کے جانور کی طرح آنکھوں پہ پٹی باندھ کر بے رحمی سے ذبح کر لیا گیا۔واقعات کی اس تالیف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کتنی خراب ہے۔ ہر پاکستانی کو ہر پلیٹ فارم پر ان واقعات کی بھر پور مذمت کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے بہت سارے لوگ ان ہلاکتوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہی نہیں۔۔ ہمارا میڈیا بھی اس مسئلے پر مناسب توجہ نہیں دے رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دینی علماء کو آگے آنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔پی ڈی ایم شہر شہر جلسے کررہی ہیں اور ریلیاں نکال رہی ہیں کیا انہیں نہیں معلوم کہ کوئٹہ کے غریب ہزارہ برادری بے بس مظلوم اس خون جمادینے والی سردی میں لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کررہے ہیں ۔ انکی قیادت میں سے اب تک کون ہزارہ برادری کے اس دھرنے میں جاکر اُنکے ساتھ اظہار یکجہتی کی ہے۔؟ انسانیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ بلاول مریم اور مولانا سمیت سارے قوم پرست بشمول پی ٹی ایم والے کے جاکر کوئٹہ میں پریشان حال ہزارہ برادری کیساتھ احتجاج کرتے اور عمران خان کو کویٹہ آنے پر مجبور کرتے۔۔ لیکن انہیں چونکہ انسانیت کی خاک پرواہ نہیں ہے اس لئے یہ خود غرض مفاد پرست کوئٹہ کی بجائے کبھی الیکشن کمیشن اور کبھی نیب دفاتر کے سامنے احتجاج کی دھمکیاں دیتے ہیں تو کبھی لانگ مارچ تو کبھی دوسرے شہر میں جلسے کی تیاری کرتے ہیں۔۔۔
وزیر اعظم عمران خان ان دنوں سینیٹ کے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں بٹورنے کے لئے اپنے کارندوں سے میٹنگز کررہے ہیں ۔یہ کام ان کے لئے کوئٹہ میں پڑی لاشوں اور قیامت خیز سردی میں مظلوموں کے دھرنے سے زیادہ اہم ہے ۔کرسی کی محبت نے ریاست مدینہ کے سربراہ کو آخرت بھلا دیا ہے اوراس کے نزدیک اپوزیشن کو ہارنا عزیز ہے انسانیت کی کوئی پرواہ نہیں ہے ماؤں بہنوں کے جگر سر عام کاٹ دیے گے یہ بے حس انسان سیاست میں مصروف ہے۔
وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ عوامی سطح پر تمام عسکریت پسند تنظیموں اور اس کے ممبروں اور اس سے وابستہ افراد کی قیادت کو فوری طور پر گرفتاری اور قانونی چارہ جوئی ، فرقہ وارانہ تشدد کی منصوبہ بندی حکم دینے مرتکب کرنے ، بھڑکانے یا ان کے قابل بنانے کے ذمہ داروں کی فوری گرفتاری اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حکم دے کر فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی عوامی سطح پر مذمت کی پیروی کریں۔بلوچستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری سے متعلق تحقیقات ، جرائم پیشہ افراد کی سفارشات اور عوامی طور پر رپورٹ کرنے کے لئے ایک آزاد وفاقی کمیشن قائم کریں۔ کمیشن کو وفاقی ، صوبائی اور مقامی سطح پر پے درپے پاکستانی حکومتوں کی بلوچستان میں اس طرح کے فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی کامیابی کے ساتھ تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کی ناکامی کی تحقیقات کرنی چاہے.۔ اس کمیشن کو فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے متعلقہ سرکاری ریکارڈ تک غیرمستقل رسائی دی جانی چاہئے ۔۔۔
فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث کسی بھی انتظامی یا سیکیورٹی اہلکار کو فوری طور پر ملازمت سے ہٹا دیں یا جو ایسے حملوں کے مبینہ مجرموں کی تفتیش اور گرفتاری میں ناکام رہے۔بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیقات اقوام متحدہ کی نگرانی میں کرائی جائے۔