ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
حقیقی رہنماؤں سے محروم قوم جو پاکستانی کہلاتی ھے ھمیشہ سے ایسی نہ تھی۔اس عظیم قوم کو قائد اعظم محمد علی جناح،حضرت علامہ محمد اقبال رحہ،حسین شہید سہروردی اور مادر ملت جیسے عظیم رہنما نصیب ھوئے۔اس خطے کے باشندے سات دھائیوں سے وہ سلطنت تلاش کررھے ھیں جس کو اسلام کا عظیم پرچم تھامنا تھا،جس کیلئے ان کے بزرگوں نے اپنے جوان بیٹے قربان کئے تھے،لاکھوں سہاگ اجڑے اور اتنے ھی بےگھر ھوئے۔قائد کی رحلت کے بعد وطن عزیز کھوٹے سکوں کے رحم و کرم پر چلاگیا جنہوں نے اقتدار کیلئے اسے زمانے بھر میں رسوا کرکے قابل رحم بنا دیا۔کسی نے قوم کی بیٹی بیچی تو کوئی بہادر جوانوں کا سوداگر بنا،کسی نے مادر ملت کو بدنام کیا تو کوئی اقتدار کیلئے سازشی کردار بنا۔کرسی کیلئے اس ملک میں کیا کیا کھیل نہیں کھیلے گئے۔وطن عزیز کی حقیقی داستان بڑی دردناک ھے۔یہاں اپنوں کے فیصلوں کی وجہ سے سقوط بھی ھوئے اور قوم ریمنڈ ڈیوس جیسے درندوں کے ھاتھ یرغمال بھی بنی۔ھمیں ڈرون بھی مارتے رھے اور ھم اپنوں کے ھاتھوں بھی بے وقار ھوتے رھے۔کسی نے جمہوریت کے نام پر لوٹا تو کوئی مسیحا بن کر راج کرتا رھا۔کوئی ڈیڈی کہتا رھا تو کسی نے جوڑ توڑ،ھارس ٹریڈنگ کے بازار گرم کرکے ملکی خودمختاری کے سودے کئے۔آج اکیسویں صدی اپنے عروج پر ھے۔زمانہ قیامت کی چال چل کر مریخ تک رسائی لے چکا ھے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس،بلاک چین اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا زمانہ ھے۔دفاع کا حقیقی تصور بدل چکا ھے۔دنیا حقیقی معنوں میں گلوبل ویلج بن چکی ھے جبکہ آج بھی ھم فیوڈل مائنڈ سیٹ کی وجہ سے Visionless ھوکر عالمی برادری میں بےوزن ھوچکے ھیں۔ساری دنیا ھمیں بھکاری،منگتے اور موقع پرست کے ٹائٹل سے پکارتی ھے۔ھمارے ادارے آج بھی مقامی رئیس اور سردار کی آنکھ کی جنبش سے چلتے ھیں۔یہ وہی بے اصول الیکٹیبلز ھیں جن کے باپ دادا کو قائد کھوٹے سکے کہتا تھا، جو یونینسٹ بلاک کا حصہ تھے۔ھمارا دکھ بڑا گہرا ھے،ھمارے لئے تبدیلی کا نعرہ لگانے والے بھی محض مہرے ثابت ھورھے ھیں۔انہوں نے جن کے خلاف تبدیلی لانا تھی انہی کو اپنی کابینہ میں empower کرکے تبدیلی کے نعرے کو بھی مذاق بنا دیا ھے۔تبدیلی سرکار نے نہ صرف ھمارا حال بے حال کردیا ھے بلکہ مسقبل قریب میں تبدیلی کے نعرے کو بھی دفن کردیا ھے۔جہاں تک بات PDM کے نام نہاد انقلابیوں کی ھے تو ان کے سیاسی DNA میں انقلابی پیراڈائم ھے ھی نہیں۔ان کا ماضی ان کی ساکھ کی گواھی دینے کیلئے کافی ھے۔تین بار وزارت عظمٰی انجوائے کرنے والے کو اپنا ذاتی درد کھائے جا رھا ھے جس کو وہ قوم کا درد بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رھے ھیں۔وہ بےفیض ھونگے کیونکہ انقلاب وہی لاسگتا ھے جس کی بنیادوں میں انصاف پر مبنی انقلابی سوچ موجود ھو۔محض تحریک انصاف نام رکھ لینے سے کوئی عالمی لیڈر نہیں بن سگتا اور نہ ھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ آپ کو طیب اردگان بنا سگتا ھے۔بھائی جان:- نیلسن منڈیلا بننے کیلئے جمہوریت کیلئے ستائیس سال جیل کاٹنا پڑتی ھے،،مجھے لگتا ھے تبدیلی اور انقلاب ایک ساتھ دم توڑیں گے کیونکہ دونوں کے نام لیوا کردار کے لحاظ سے Visionless ھیں۔ایک کو جاگیرداروں اور انتقام کا کینسر اجاڑ چکا ھے جبکہ دوسرا تین دفعہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب انجوائے کرنے کے باوجود جمہوریت کی روح کو سمجھنے سے قاصر ھے۔ ھمارا آنے والا وقت کیسا آتا ھے کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن ھم یہ اندازہ بخوبی لگا سگتے ھیں کہ اگلی کئی دھائیوں تک تبدیلی اور انقلاب کے نام لیواؤں پر زمانہ تمسخر اڑاتا رھے گا۔ھمیں افسوس رھے گا کہ آپ نے تبدیلی اور انقلاب کے نعروں کو بھی اپنے بونے کردار کی وجہ سے بونا بنا دیا ھے۔دس ہزار سالہ انسانی ریکارڈڈ ہسٹری گواہ ھے کہ آج تک تاریخ نے اپنے سنہری حروف میں ھمیشہ اسے لیڈر لکھا اور مانا ھے جس نے خود کو فتح کرکے انسانیت کا درد بانٹا،جو مظلوم کی طاقت بنا۔یہ طے ھے کہ میر جعفر،میر صادق کے کردار پر عظیم لیڈرشپ کا اسٹیٹس مل ھی نہیں سگتا۔قیادت کا جھنڈا اٹھانے کیلئے انسان کو اللہ پاک کے آفاقی راستے کا مسافر اور مرد میدان بننا پڑتا ھے۔