ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
ملتان (ڈاکٹر فیصل جہاں ) معمول میں خبروں پر نظر دوڑاتے دوڑاتے ایک خبر پر نظر پڑی جس نے دل گرفتہ کردیا۔ تب سے طبیعت انتہائی اداس اور دل بے قرار ہے۔ شاید یہ خبر بھی خبروں کا حصہ بن کر قصہ پارینہ بن جائے گی۔ لیکن اہل دل کے لئے یہ صرف ایک خبر نہیں بلکہ دل کو دہلا دینے والی ایک ایسی حقیقت ہے جو کہ ہمارے اندر کو چھلنی کرتی ہے۔ اس تحریر کے ساتھ منسلک تصویر کو اگر بغور دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ بچی آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ معلوم ہے کیوں؟؟؟ کیونکہ یہ ہم سے ناراض ہے،،، ہم سب سے ناراض ہے،، کیونکہ ہم سب ہی تو اس معصوم کے مجرم ہیں۔ یہ وہ معصوم ہے جسے لاوارث بنا کر راہداری میں پھینک دیا گیا۔ اسے پھینکنے کے پس پشت کیاداستان پوشیدہ ہے یہ تو اس داستان کو رقم کرنے والے جانتے ہیں تو یا پھر وہ مالک حقیقی جو ہم سب کا خالق اور روز قیامت فیصلے کرنے والا ہے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ معصوم کلی پھول بن کر کھلنے سے پہلے ہی اپنے باغ سے جدا کردی گئی اور اسے توڑ کر چمن سے باہر پھینک دیا گیا۔ اور اب تمام عمر اس کی آنکھیں اپنے ماں باپ یا شاید اپنے مجرم تلاش کریں گی۔
چائیلڈ پروٹیکشن بیورو ملتان نے ایک خبر جاری کی کہ لاوارث نومولود بچی کو حفاظتی تحویل میں لے لیا،بچی کو تھانہ سٹی مظفرگڑھ سے لاوارث پا کر چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کیا گیا،نومولود بچی کو نامعلوم شخص سٹریٹ نمبر 4 ٹبہ کریم آباد مظفر گڑھ کے علاقے میں چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا، شہری کی اطلاع پر مقامی پولیس نے بچی کو ریسکیو کر کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کیا،بچی کو بہترین سہولیات کی فراہمی کے لئے چائلڈ پروٹیکشن بیورو سنٹر لاہور منتقل کر دیا گیا ہے،بچی کو لاہور سنٹر میں موجود نرسری میں رکھا جائے گا جہاں بچی کی مناسب دیکھ بھال کی جائے گی۔
چائیلڈ پروٹیکشن بیورو کے اس اقدام کو جس قدر سراہا جائے اس قدر کم ہے۔ یقینا یہ ادارہ شاباش کا مستحق ہے ۔ چائیلڈ پروٹیکشن بیورو اور ریسکیو 1122 یقینا ان چند اداروں میں شمار ہوتے ہیں جو کسی طرح سے متنازعہ نہیں اور انسانیت کی خدمت میں اپنی مثال آپ ہیں۔
لیکن کیا کوئی ادارہ یا کوئی بھی شخص اس بچی کو اس کی ماں لوٹا سکتا ہے؟ کیا اسے کوئی باپ کی شفقت دے سکتا ہے؟ یا یہ بچی تمام عمر صرف اپنوں کی محبت اور شفقت کی منتظر رہے گی۔ اس معصوم کلی کو کھلنے سے پہلے ہی مسلنے کا اقدام کیا گیا، اسے یوں لاوارث راہداری میں پھینک دیا گیا۔ اگر اس انتہائی پیاری معصوم بچی کی تصویر میں اس کی آنکھوں کی طرف دیکھیں تو ابھی تو وہ آنکھیں کھولنے کی بھی طاقت نہیں رکھتی، یا شاید وہ ہم سب سے ناراض ہے اور ہماری طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔ یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا اس کے پھینکنے والوں کے دل پر کہیں احساس نے اپنی گرفت قائم نہیں کی؟ یہ ایک پھول کا واقعہ نہیں، شاید یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں آئے روز دوہرایا جاتا ہے، ظلم کرنے والوں کی تو کوئی گنتی ہی نہیں ، لیکن دوبارہ عبدالستار ایدھی کون پیدا کرے گا؟ اور پھر اگر کوئی عبدالستار ایدھی ان لاوارث بچوں کے لئے محافظ بن کر آ بھی جائے تو ہم اسے ایسے ایسے القابات سے نوازتے ہیں کہ جیسے ہم ہی تو آخرت کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کر رہے ہیں۔ اس معصوم کلی کی تصویر دیکھ کر احساس کی بجھی ہوئی کرن کو پھر سے اجاگر کرنا ہوگا۔ ہمیں ان لاوارث بچوں کا سہارہ بننا ہوگا۔