ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی کو بتایاگیا ہے کہ کسی کو بچوں کی کفالت کیلئے بھی اعضاء بیچنے کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی، حکومت بچوں کے ساتھ جرائم میں ملوث افراد کو عبرتناک سزا دینے پر یقین رکھتی ہے،اسلام آباد میں کوڑا کرکٹ اور آلودگی کے سدباب کے لئے وفاقی حکومت دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر ایک مربوط پروگرام لا رہی ہے،پوری قوم نے مل کر پاکستان میں دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے‘ برطانیہ سمیت دیگر ممالک ٹریول ایڈوائزری نرم کرکے اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔وقفہ سوالات کے دور ان وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ 2014ء سے 2019ء تک 7 مقدمات درج کئے گئے اور 37 ملزمان گرفتار کئے گئے،یہ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، ابھی تک کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ انسانی اعضاء کی تجارت میں اضافہ نہیں ہوا، سزائیں دینا عدالتوں کا کام ہے، حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، ایف آئی اے کی طرف سے اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کو انسانی اعضاء کا تحفہ اس کا قریبی عزیز خون کا نمونہ ملنے پر دے سکتا ہے، اس ضمن میں قانون سازی درکار ہے۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی لینی ہوگی، کسی کو بچوں کی کفالت کیلئے بھی اعضاء بیچنے کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔قومی اسمبلی کو بین الصوبائی رابطہ کی وزارت کی جانب سے بتایا گیا کہ ملک میں کرکٹ کے فروغ کے لئے سخت ترین حفاظتی اقدامات کے تحت ہیلی کاپٹر کے ذریعے نگرانی سمیت ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنے پڑتے ہیں جس پر اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری صائمہ ندیم نے کہا کہ پاکستان میں کرکٹ میچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے،12 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے اور بعض اوقات ہیلی کاپٹر کے ذریعے نگرانی کرنا پڑتی ہے جس پر اخراجات اٹھتے ہیں۔ ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں صائمہ ندیم نے کہا کہ تمام کھیلوں کی فیڈریشنز خودمختار ہیں، وہ اپنے فنڈز کے حوالے سے بھی بااختیار ہیں۔ اس میں وزارت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔وزارت داخلہ کی جانب سے قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں کوڑا کرکٹ اور آلودگی کے سدباب کے لئے وفاقی حکومت دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر ایک مربوط پروگرام لا رہی ہے‘ اس سے بڑی حد تک اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ بتایا گیا کہ اسلام آباد کے بعض سیکٹروں جی سیون ٹو وغیرہ میں کوڑا کرکٹ کے باکسز ٹوٹ چکے ہیں اور آلودگی کا باعث بن رہے ہیں، یہ باکسز اپنی میعاد پوری کر چکے ہیں۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے بتایا کہ یہ معاملہ درحقیقت میونسپل کارپوریشن کے تحت آتا ہے تاہم سی ڈی اے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی اور نئے باکسز رکھ دیئے جائی گے۔ علی نواز اعوان نے کہا کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت دیگر مقامی داروں کے ساتھ مل کر ایک مربوط نظام لا رہی ہے، توقع ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ سیکٹر جی 15/4 میں 128 پلاٹوں کا قبضہ نہیں دیا گیا۔ ایک ضمنی سوال کے جواب میں وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ ماضی میں غلط طریقہ کار اختیار کیا گیا‘ زمین کم تھی جبکہ الاٹمنٹ زیادہ کردی گئی۔ یہ سات ارب روپے کا سکینڈل ہے، سوسائٹی کی سابق انتظامیہ نے لوگوں کو 7 ارب کا ٹیکہ لگایا، اب ہمیں بتایا گیا ہے کہ 572 لوگوں کو قبضہ دے دیا گیا ہے۔ سکینڈل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو تحقیقات کے لئے ارسال کردیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ یکم جولائی 2011ء تا 30 جون 2016ء تک جموں و کشمیر ہائوسنگ سوسائٹی کے فرانزک آڈٹ کا عمل جاری ہے۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ 2016ء سے 2019ء تک کے عرصے کا آڈٹ ابھی ہونا ہے۔ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔ اس سکینڈل میں ملوث افراد کے نام بھی بتا دیئے گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو مزید کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ ساجدہ بیگم کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی اگر کوئی پلاٹس لئے ہوئے ہیں تو سپیکر کی رولنگ کے تحت کارروائی کریں گے۔ راجہ خرم نواز نے کہا کہ جموں و کشمیر ہائوسنگ سوسائٹی اور پارلیمنٹ کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اربوں روپے کے سکینڈل ہیں، یہ معاملات قائمہ کمیٹی داخلہ میں بھی زیر بحث ہیں۔ ان میں ملوث افراد کے نام ای سی ایل پر ڈال کر ریکوری کی جائے۔قومی اسمبلی کو وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ 2019ء میں پنجاب‘ سندھ‘ کے پی کے بلوچستان‘ آزاد جموں و کشمیر ‘ گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں 7 لاکھ 77 ہزار 251 مقدمات درج ہوئے۔وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ جرائم کے سدباب کے لئے ممبر و محراب کے ذریعے علماء کرام اور سول سوسائٹی اپنا کردار ادا کرے‘ حکومت اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے ذریعے ففتھ وار کی کمر ٹوٹ گئی ہے، پاکستان کے حوالے سے برطانیہ نے اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت دی ہے، ایک وہ وقت تھا کہ کوئی کرکٹ ٹیم نہیں آسکتی تھی، اب غیر ملکی سوات اور شمالی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے بتایا کہ 2018ء میں ملک بھر میں 8763 جبکہ 2019ء میں 9393 واقعات سامنے آئے۔ ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ اسلام آباد میں قتل‘ حادثات‘ چوری اور ڈکیتی کے واقعات میں اعداد و شمار کے مطابق 2018ء کے مقابلے میں 2019ء میں واضح کمی آئی ہے، جرائم کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سے فاضل رکن کا ایک بل زیر التواء ہے، میں چاہتا ہوں کہ وہ جلد از جلد لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان جرائم کے سدباب کے لئے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے، زینب الرٹ بل میں ایسے افراد کے لئے سزائے موت تجویز کی گئی تھی مگر راجہ پرویز اشرف نے سزائے موت کی سزا کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے بچوں کو اس طرح ذلیل کرکے مارنے والوں کو مثالی سزا نہیں دی جائے گی ان جرائم کا سدباب نہیں ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان ایسے جرائم کے مرتکب افراد کے لئے سزائے موت چاہتے ہیں۔ ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق قتل کا بدلہ قتل ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جائے، پورا ایوان اس کی سپورٹ کرے، یہ معاملہ ہم سب کا مشترکہ ہے اس میں سیاست نہیں ہونی چاہیے اور یہ فیصلے جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کرنے ہوں گے۔اجلاس کے دور ان وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پانی کی قلت اور میئر کی جانب سے اس طرف توجہ نہ دینے کا معاملہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سپرد کردیا گیا۔ تحریک انصاف کے رکن علی نواز اعوان نے کہا کہ اسلام آباد کے مختلف سیکٹروں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ جی ٹین میں گزشتہ دنوں ایک رہائشی کی موت واقع ہوئی۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے اسے منرل واٹر سے غسل دیا گیا۔ غازی بروتھا سے اسلام آباد کو پانی دینے کے منصوبے پر غور ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کے میئر کے پاس دو ارب روپے کے فنڈز موجود ہیں تاہم وہ اس کو خرچ نہیں کرتے۔ وہ دس دن لندن ‘ دس دن اسلام آباد اور دس دن عمرے میں گزارتے ہیں۔ یہ معاملہ کمیٹی کو بھجوایا جائے جس پر سپیکر نے یہ معاملہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔اجلاس کے دور ان ڈپٹی سپیکر نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی سالانہ آمدن ‘ اخراجات‘ چیئرمین کی تنخواہ اور الائونسز اور اس میں کام کرنے والے ملازمین کو دی جانے والی مراعات کے حوالے سے معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔ سوالات کے دوران ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو کی جانب سے سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ وہ اس جواب سے مطمئن نہیں ہیں جس پر یہ سوال متعلقہ کمیٹی کو ریفر کرتے ہوئے کہا گیا کہ متعلقہ کمیٹی میں پی سی بی کے ذمہ داران کو بھی بلایا جائے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ ہم خود اس سوال پر مزید تفصیلات چاہتے تھے‘ آج گیلری میں ان کے افسران بھی موجود نہیں ہیں ان کو یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔پارلیمانی سیکرٹری خزانہ و محاصل زین قریشی نے کہا کہ سابق فاٹا اور پاٹا کے گھریلو صارفین 30 جون 2023ء تک یوٹیلٹی بلز پر سیلز و انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں تاہم یہاں نئی انڈسٹری لگانے پر استثنیٰ نہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ و محاصل زین قریشی نے بتایا کہ ان علاقوں کے رہنے والوں سے یہ ٹیکس نہیں لئے جارہے‘ اگر کہیں ایسا ہے تو ہمارے نوٹس میں لایا جائے۔ انہوں نے شیر اکبر کے سوال کے جواب میں کہا کہ سابق فاٹا اور پاٹا میں پانچ سال کے لئے استثنیٰ ہے۔ یہ استثنیٰ30 جون 2023ء تک ہے۔ فاٹا اور پاٹا کے انضمام کے بعد یہاں پر نئی صنعت پر ٹیکس ہوگا۔ گھریلو صارفین اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اگر کہیں پر ایسا ٹیکس لگا ہے تو اس کو ریجنل ٹیکس آفس میں لے جائیں یہ ختم ہو جائے گا۔ ڈاکٹر حیدر علی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم فاٹا کے پسماندہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر کسی صارف کو غلط سیلز ٹیکس لاگو ہوا ہے تو یہ درست ہو جائے گا اس کا بہتر جواب وزارت بجلی دے سکتی ہے۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے پیر کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔