ہر خبر سے آراستہ
ہر خبر سے آراستہ
اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک خسرو بختیار نے کہا ہے کہ یہ معیشت پر سیاست کرنے کا وقت نہیں ،نیشنل اکنامک چارٹر لانا وقت کی اہم ضرورت ہے، اگر ملک میں صرف درآمد کر کے اشیاء استعمال کی جائیں تو ترقی کیسے ہوگی،اگر پوری اپوزیشن ٹیکس رجیم کی مخالفت کرے تو ٹیکس کلیکشن کی شرح 11 سے 12 فیصد ہی رہے گی،جب ملک پر قرضوں کا بوجھ 78 فیصد ہوگا تو اس کا سود ادا کرنے کے ساتھ حقیقی رقم بھی ادا کرنا ہوگی اور اگر اسی ریونیو کے ساتھ ہم چلیں گے تو مشکلات جاری رہیں گی،سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے جس کے ملک میں سرمایہ کاروں کو عزت دینے کا رجحان پیدا کرنا ہوگا، نئے شعبوں میں پیسہ پہنچانے کے لیے ہمیں نیشنل ڈیولپمنٹ فنانس انسٹیٹوٹشن بنانا پڑے گا۔جمعرات کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ معاشی نمو ہی معیشت کی بہتری کا واحد حل نہیں بلکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ گروتھ مستحکم ہے یا نہیں۔انہوںنے کہاکہ اگر ملک میں صرف درآمد کر کے اشیاء استعمال کی جائیں تو ترقی کیسے ہوگی، انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے آغاز میں ایک ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں 1.3 ڈالر کی درآمدات تھیں جبکہ ان کی حکومت کے خاتمے کے وقت یہ تناسب ایک ڈالر برآمدات کے مقابلے میں 2.3 ڈالر کی درآمدات تک چلا گیا تھا۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں کھپت کی شرح 94 فیصد ہے اور پیداوار صفر ہے جبکہ بھارت میں 80 فیصد ہے۔انہونے کہاکہ معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے کریڈٹ اور بینکس کو سیونگز کے ذریعے پیسہ حاصل ہوتا اور پاکستان میں سیونگز کی شرح صرف 10 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 20 فیصد ہے۔انہوںنے کہاکہ کئی دہائیوں سے معاشی ڈھانچے کی جانب توجہ ہی نہیں دی گئی اور زرعی شعبے میں محض نصف فیصد کی شرح نمو ہوئی۔خسرو بختیار نے کہاکہ اگر پوری اپوزیشن ٹیکس رجیم کی مخالفت کرے تو ٹیکس کلیکشن کی شرح 11 سے 12 فیصد ہی رہے گی، انہوں نے کہا کہ تجارتی کنکشنز کے صارفین کی تعداد 31 لاکھ ہے جس میں سے صرف 14 لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ 50 لاکھ بینک کاؤنٹس ہولڈرز کی موجودگی میں محض 5 لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جب ملک پر قرضوں کا بوجھ 78 فیصد ہوگا تو اس کا سود ادا کرنے کے ساتھ حقیقی رقم بھی ادا کرنا ہوگی اور اگر اسی ریونیو کے ساتھ ہم چلیں گے تو مشکلات جاری رہیں گی۔انہوںنے کہاکہ ہر وفاقی حکومت کا آغاز ہی خسارے سے ہوتا ہے کیوں کہ اگر حکومت مجموعی ملکی پیداوار کے 12 فیصد ٹیکس کی شرح پر 50 کھرب ریونیو بھی حاصل کرلے تو ساتویں ترمیم کے تحت 3 ہزار ارب روپے صوبوں کو دینے پڑتے ہیں اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ان میں مشکلات کا سامنا ہر حکومت کو کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے جس کے ملک میں سرمایہ کاروں کو عزت دینے کا رجحان پیدا کرنا ہوگا۔انہوںنے کہاکہ پورے پاکستان میں نجی شعبے میں سرمایہ کاری کی شرح محض 9 فیصد ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بینکس کے پاس دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ ہم پالیسیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں ایک دفعہ تمام بینکس قومیالیے گئے اور بعد ازاں سب کو پرائیویٹائز کردیا گیا۔خسرو بختیار نے کہاکہ بینکس اچھے سود پر صرف حکومت یا اہم صنعتوں مثلاً سیمنٹ، کھاد، چینی وغیر کو پیسہ دے رہے ہیں جبکہ چھوٹے صنعتکار جنہیں سال 2000 تک مجموعی کریڈٹ کا 17-18 فیصد حصہ ملتا تھا آج صرف 6 فیصد حاصل کررہے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ نئے شعبوں میں پیسہ پہنچانے کے لیے ہمیں نیشنل ڈیولپمنٹ فنانس انسٹیٹوٹشن بنانا پڑے گا۔انہوںنے کہاکہ خطے میں چین اور بھارت کی شرح نمو دیکھیں جبکہ اپنی آبادی پر نظر ڈالیں جو 2047 تک 40 کروڑ تک پہنچ جائیگی جسے اسی زمین سے خوراک مہیا کرنی ہوگی جبکہ ہماری پیداوار بڑھنے کے بجائے آج بھی فی ایکڑ پیداوار وہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے باعث یہ معیشت پر سیاست کرنے کا وقت نہیں بلکہ ایک نیشنل اکنامک چارٹر لائیں اور 10 سالہ توانائی پالیسی پیش کریں۔وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک نے کہا کہ دنیا میں توانائی کی پالیسی 10 سے 15 سال کے عرصے کے لیے بنتی ہیں ایسی صورتحال میں کون سرمایہ کاری کرے گا جب گردشی قرض ہی 12 ہزار ارب ہو؟ سرمایہ کاری لیے بجلی کے بہتر ٹیرف ضمانت اور سیکورٹیز دینی پڑتی ہیں جس کی وجہ سے فی ٹیرف پیداوار بڑھ جاتی ہے اور خمیازہ پورا ملک بھگتا ہے۔